بھاری پتھر
منسانہ
‘
مغرب میں اماں بابوں کا گلاواں‘ اولاد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘ ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ نکالنے والا نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔ واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔
دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘ تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔ اب پتا چلا کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی زد میں کیوں ہیں۔
بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر چکا تھا۔
ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔ اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔
بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا :
بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست
یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔ ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘ ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پلا پلا کر غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔